شیانگچی (象棋)، جسے چینی شطرنج بھی کہا جاتا ہے، ایک کلاسیکی حکمت عملی پر مبنی کھیل ہے جو گہرے تاریخی پس منظر اور مشرقی ایشیا کی ثقافت میں خاص مقام رکھتا ہے۔ گو کے ساتھ ساتھ، یہ کھیل چینی تہذیب کی ایک اہم فکری علامت سمجھا جاتا ہے۔
مغربی شطرنج کے برعکس، شیانگچی نے اپنے منفرد اصولوں اور منطق کے تحت ترقی کی، جو حکمت عملی اور جگہ کے بارے میں خاص مشرقی نظریہ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کھیل میں نہ صرف درست حساب اور منطقی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ لطیف وجدان بھی درکار ہوتا ہے — جو مشرقی فلسفہ میں ایک نہایت قابلِ قدر خوبی مانی جاتی ہے۔
آج شیانگچی نہ صرف چین میں بلکہ ویتنام میں بھی مقبول ہے، جہاں یہ کھیل cờ tướng کے نام سے جانا جاتا ہے اور قومی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ملک میں ایک جامع ٹورنامنٹ سسٹم موجود ہے، جس میں پیشہ ورانہ مقابلوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر کھیلی جانے والی شوقیہ لیگیں بھی شامل ہیں۔
دنیا بھر میں چینی تارکین وطن کے درمیان، شیانگچی ایک ثقافتی علامت کے طور پر اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے، جو نسلوں کو آپس میں جوڑتی ہے اور محض تفریح نہیں بلکہ ایک علمی و تاریخی ورثہ بھی ہے۔
کھیل کی تاریخ
تمام شطرنج نما کھیلوں کی ابتدا چتورنگا (चतुरङ्ग) نامی ہندوستانی کھیل سے ہوئی، جو پانچویں یا چھٹی صدی عیسوی کا ہے۔ مغرب میں یہ کھیل کلاسیکی شطرنج کی شکل اختیار کر گیا، کوریا میں جانگی (장기, 將棋)، جاپان میں شوگی (将棋)، اور چین میں شیانگچی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ تمام کھیل مستطیل شکل کی خانہ دار تختیوں پر کھیلے جاتے ہیں، اور ان میں مختلف قدروں والی مہروں کا استعمال ہوتا ہے۔ ایک اور نظریہ کے مطابق، شیانگچی کی ابتدا بھارت سے نہیں بلکہ دو ہزار سال قبل قدیم چین میں خودبخود ہوئی۔ ہان دور کی چند تحریریں اس خیال کی تائید کرتی ہیں، لیکن قطعی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ "شیانگچی" کا مطلب ہے "ہاتھی والی شطرنج"، اور یہ مہروں کی علامتوں اور کھیل کے نام میں جھلکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قدیم دور میں شیانگچی کی کئی مقامی شکلیں موجود تھیں، جن کے اصول مختلف ہوتے تھے، اور موجودہ قواعد دسویں صدی میں مرتب ہوئے۔
آٹھویں صدی میں شیانگچی یقینی طور پر چین میں موجود تھی، اور اسے سہ جہتی مہروں کے ساتھ کھیلا جاتا تھا — برخلاف جاپانی شوگی کے، جس میں چپٹی تختیاں استعمال ہوتی تھیں۔ مہروں میں بادشاہ، ہاتھی، رتھ، اور سپاہی (پیادے) شامل تھے — بالکل چتورنگا کی مانند۔ اس قدر مشابہت کو محض اتفاق قرار دینا مشکل ہے، اور چاہے یہ کھیل براہِ راست چتورنگا سے پیدا نہ ہوا ہو، اس کا اثر نمایاں تھا۔
شیانگچی کی دیگر شطرنجی کھیلوں سے ایک بڑی انفرادیت "دریا" کا وجود ہے، جو تختے کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کچھ مہریں، جیسے ہاتھی، دریا عبور نہیں کر سکتیں، جو حکمت عملی میں مزید گہرائی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ "محل" بھی ایک خاص عنصر ہے، جو جنرل اور محافظوں کی نقل و حرکت کو محدود کرتا ہے — ایسی خصوصیت دیگر کسی شطرنج میں نہیں پائی جاتی۔
آٹھویں سے دسویں صدی کے درمیان چین میں شیانگچی کی مقبولیت ناقابلِ انکار تھی، اور اسے اشرافیہ کے ساتھ ساتھ عام کسان بھی کھیلتے تھے۔ فرق صرف تختیوں اور مہروں کی تیاری کی لاگت اور پیچیدگی میں تھا۔ ایک مشہور تاریخی واقعہ دسویں صدی کی ایک بازی ہے، جس میں سیاح چن توان (陳摶) نے چینی شہنشاہ کو شکست دی۔ طویل عرصے تک یہ کھیل صرف چین کی میراث رہا، اور اس کی مغرب میں شناخت بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔
اس وقت کی ادبیات اور مصوری میں شیانگچی کا ذکر ملتا ہے، جو اس کی ثقافتی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ قدیم چین میں اسے ذہنی حکمت عملی کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اور یہ مستقبل کے افسران اور جرنیلوں کو سکھانے کی سفارش کی جاتی تھی۔
یورپی باشندے سب سے پہلے فرانسیسی مصور فرانسوا بوشے کے نقش "چینی شطرنج کا کھیل" کے ذریعے اس کھیل سے واقف ہوئے، جو 1741 سے 1763 کے درمیان پیرس میں کندہ کیا گیا۔ مغرب میں اس کے بارے میں جانا تو جاتا تھا، لیکن اس کا عملی کھیلنا 1930 کی دہائی میں ہی شروع ہوا۔ 1930 میں ہانگ کانگ میں جنوبی اور مشرقی چین کے درمیان ایک بڑا ٹورنامنٹ منعقد ہوا، جس میں 16 راؤنڈ تھے اور جو برابر ختم ہوا — اور یہ عالمی سطح پر کھیل کی شہرت کا نقطۂ آغاز بنا۔
اس کے بعد چین میں درجنوں علاقائی لیگیں اور تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جہاں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی شیانگچی سکھایا جاتا ہے۔ کھیل کی نشریات اور ماہر کھلاڑیوں کی تجزیاتی رائے نے، خاص طور پر بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں، اس کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام نے شیانگچی کی مقبولیت کو مزید فروغ دیا، اور ملک بھر میں سالانہ مقابلے ہونے لگے، جنہیں چین اور بیرون ملک لاکھوں افراد دیکھتے تھے۔ 1956 میں، شیانگچی کو باضابطہ طور پر چین میں کھیل کا درجہ دیا گیا۔
1980 کی دہائی سے بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہونے لگے، جن میں عالمی چیمپئن شپ بھی شامل ہے، اور ان میں یورپ، امریکہ، سنگاپور، ویتنام اور دیگر ممالک کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ شیانگچی کی عالمی فیڈریشن (WXF, 世界象棋联合会) 1993 میں قائم ہوئی اور تب سے دنیا بھر کے بڑے مقابلوں کی نگرانی کر رہی ہے۔
دلچسپ حقائق
گو اور شیانگچی چین کی دو معروف بورڈ گیمز ہیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ چینی شطرنج کے بارے میں چند دلچسپ باتیں:
- شیانگچی کو 2008 اور 2012 کے ورلڈ مائنڈ گیمز میں باضابطہ طور پر شامل کیا گیا۔
- 1970 کی دہائی میں سوویت یونین نے شیانگچی کو مقبول بنانے کی کوشش کی: "چو ہونگ کی" کے نام سے نظریاتی کتابیں اور کھیل کے سیٹ فروخت کیے گئے، لیکن ثقافتی اختلافات اور لسانی رکاوٹوں کے باعث یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
- بیسویں صدی کے سب سے مضبوط کھلاڑی شیہ شیاشون (谢侠逊) کو مانا جاتا ہے، جنہوں نے انگریزی میں اس کھیل پر پہلی کتاب لکھی، اور بعد میں چینی شیانگچی ایسوسی ایشن (中国象棋协会) کے نائب صدر بنے۔
- اکیسویں صدی کے سب سے نمایاں کھلاڑی لُوئی چھِن (吕钦) ہیں — جو پانچ بار چین کے قومی چیمپئن بن چکے ہیں۔
- چین کے کچھ اسکولوں میں شیانگچی کو غیر نصابی سرگرمی کے طور پر شامل کیا گیا ہے تاکہ طلبہ کی منطقی اور فضائی سوچ کو بہتر بنایا جا سکے۔
- ایشیا کی مقبول ویڈیو پلیٹ فارمز پر کچھ شیانگچی کی بازیاں لاکھوں ویوز حاصل کرتی ہیں، خاص طور پر جب انہیں مشہور گراںڈ ماسٹرز تبصرہ کرتے ہیں۔
- چین کے عجائب گھروں میں قدیم شیانگچی کی تختیاں اور مہریں موجود ہیں، جو یشم، ہاتھی دانت اور قیمتی لکڑیوں سے بنی ہیں۔
شیانگچی محض شطرنج کی ایک قسم نہیں، بلکہ ایک منفرد ثقافتی مظہر ہے، جو ہزاروں سال کی تاریخ، فلسفہ، اور مشرقی حکمت عملی کی سوچ کو سموئے ہوئے ہے۔ اس کے قواعد، تختہ، اور مہریں چینی دنیا بینی کی عکاسی کرتے ہیں، اور اس کی کثیر النوع چالیں اسے نئے اور تجربہ کار کھلاڑیوں دونوں کے لیے پرکشش بناتی ہیں۔ آج شیانگچی چینی ثقافت کی حدود سے نکل کر عالمی فکری ورثے کا حصہ بن چکا ہے، کلاسیکی شطرنج اور گو کے شانہ بشانہ۔
اگر آپ اپنی منطقی صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں، چالوں کی پیشگوئی سیکھنا چاہتے ہیں، اور ایک قدیم روایت سے جڑنا چاہتے ہیں — تو شیانگچی ضرور آزمائیں۔ ایک ہی بازی آپ کو اس کی گہرائی اور ناقابلِ پیشگوئی فطرت سے حیران کر سکتی ہے۔